Ummul Momineen Hazrat Umm Habiba Bint Abu Sufyan RA \ Ummul Momineen Hazrat Umm Habiba Bint Abu Sufyan RA

 Ummul Momineen Hazrat Umm Habiba Bint Abu Sufyan RA 



اردو اسلامی مضامین

ام المومنین حضرت ام حبیبہ بنت ابو سفیان رضی اللہ عنہا - تحریر نمبر 3546

آپ کا نکاح رسول پاک صلی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہو گیا اور آپ رضی اللہ عنہا المومنین بن گئیں

آپ رضی اللہ عنہا کا حقیقی نام رملہ تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا کے والد ابی سفیان اور والدہ صفیہ بنت العاص تھیں۔ بعض موٴرخین نے آپ رضی اللہ عنہا کا نام رملہ اور بعض نے ہند بھی لکھا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا رسول پاک صلی علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے سترہ سال قبل پیدا ہوئیں۔آپ اوائل اسلام میں ہی مسلمان ہو گئی تھیں۔ آپ کا پہلا نکاح عبیداللہ بن حجش سے ہوا تھا۔

عبیداللہ بن حجش حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بن حجش کا بھائی تھا۔ عبیداللہ بن حجش نے حبشہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ہجرت کی۔وہاں ان کی لڑکی حبیبہ پیدا ہوئی جس کے نام پر ان کی کنیت ام حبیبہ مشہور ہو گی۔ حبشہ میں عبداللہ بن حجش نے مرتد ہو کر عیسائیت اختیار کر لی اور شراب وکباب میں منہمک ہو کر اپنی جان ضائع کر دی۔

اس کے مرنے کے بعد رسول پاک صلی علیہ وآلہ وسلم نے نجاشی کے ذریعے سے آپ رضی اللہ عنہا کی عدت کے بعد پیغام نکاح بھیجا جو کہ آپ نے قبول فرمایا اور آپ کا نکاح رسول پاک صلی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہو گیا اور آپ رضی اللہ عنہا المومنین بن گئیں۔


ایک اور روایت کے مطابق آپ رضی اللہ عنہا کا نکاح رسول پاک صلی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حبشہ میں نہیں بلکہ مدینہ میں ہوا تھا۔رسول پاک صلی علیہ وآلہ وسلم نے نکاح میں آنے کے بعد آپ رضی اللہ عنہا رسول پاک صلی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کو اپنی سعادت سمجھتی تھیں۔ فتح مکہ سے قبل ایک بار ابو سفیان مدینہ آئے تو انہوں نے سب سے پہلے اپنی بیٹی کے گھر جانے کا قصد کیا ۔

حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اپنے والد کو وہاں پہنچ کر رسول پاک صلی علیہ وآلہ وسلم کے بستر پر نہ بیٹھنے دیا کہ وہ کافر ہیں او ایک کافر ایک نبی کے بستر پرنہیں بیٹھ سکتا۔ آپ رضی اللہ عنہا حدیث پر نہایت شدت سے عمل پیرا ہوتی تھیں اور دوسروں کو بھی اس کی تاکید کرتی تھیں۔
وفات کے وقت آپ رضی اللہ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بلا کر ان سے عمدہ کلام کیا۔

آپ رضی اللہ عنہا فطر تاً نیک سیرت تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا سے کئی احادیث منقول ہیں ۔آپ رضی اللہ عنہا نے 44 ہجری میں انتقال فرمایا۔ ان کے بھائی معاویہ رضی اللہ عنہا بن ابی سفیان اس وقت حکمران تھے۔ابن عساکر کی روایت ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا اپنے بھائی کو ملنے دمشق گئیں اور وہیں آپ کا انتقال ہوا۔ آپ کی قبر دمشق میں ہے لیکن دیگر موٴرخین کے مطابق آپ رضی اللہ عنہا کا انتقال مدینہ میں ہوا اور آپ کی قبر بھی وہیں پر ہے۔

وفات کے وقت آپ رضی اللہ عنہا کی عمر 73 برس تھی۔ حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ میں نے ایک بار اپنے مکان کا گوشہ کھدوایا تو وہاں سے ایک کتبہ ملا جس پر لکھا تھا۔ یہ رملہ بن صغر کی قبر ہے چنانچہ میں نے اس کو وہیں رکھ دیا۔
عبید اللہ بن حجش سے آپ کی دو اولاد دیں ہوئیں۔ ایک عبداللہ اور ایک حبیبہ۔ حبیبہ نے آغوشِ رسالت میں تر بیت پائی اور عروہ بن مسعود ثقفی رئیس اعظم قبیلہ ثقف کے بیٹے داوٴد سے منسوب ہوئیں۔

آپ رضی اللہ عنہا سے بخاری اور مسند احمد کی احادیث مروی ہیں۔ ابوسفیان کے انتقال پر آپ رضی اللہ عنہا نے رسول پاک صلی علیہ وآلہ وسلم کی حدیث بیان فرمائی:
”کسی عورت کے لئے جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتی ہے ، یہ جائز نہیں کہ وہ کسی مرنے والے کا تین دن سے زائد سوگ کرے۔ البتہ اپنے شوہر کے لئے چار ماہ دس دن سوگ کرنا چاہیے۔“

Wiladat Basadat Madina Ilam Ka Darwaza - Maula Ali RA 


شیروں کے شیر اللہ کے شیر مو لا علی مرتضی شیر خدا کی ولادت باسعادت ۱۳ رجب المرجب کوجمعہ کے دن اللہ تعالیٰ کے گھر خانہ کعبہ میں ہوئی ۔آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد کعبہ شریف میں داخل ہوئیں او ر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا فرمائیں کہ اومی و محافظ میرے درد کو آسان فرما دے۔اچانک ہی کعبہ کی دیوار کھل گئی۔اور وہ گویا کسی غیب قوت کے ذریعہ اندر گئیں اور دیوار بن ہو گئی۔
آپ تین دن تک اندر رہیں اور تین دن کے بعد جب باہر آئیں تو آپ کی گود میں حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔
امام علی رضی اللہ عنہ کی کنیت
آ پ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو تراب ،ابو الحسن اور حسین تھی۔
شیر خدا کی پرورش
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کے بعد جب آپ نے آنکھ کھولی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آغوش میں تھے۔


حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پرورش اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول حضر ت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمائی۔اور جس کی پرورش کرنے والا خود اللہ کا رسول ہو ان کی شان کتنی نرالی ہو گی۔
مولا علی رضی اللہ عنہ کے والد ماجد
آپ رضی اللہ عنہ کے والد ماجد کا نام حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ ہے اور حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ کی شان اتنی بلند ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کے والد حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ نے فرمائی۔
اور ہمیشہ حق کا ساتھ دیا ۔اپنی پوری زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت میں گزار دی ۔دشمنوں کے طعنے سہ لیے مگر اپنے بھیتجے کا ساتھ نہ چھوڑا اور اس وقت میں حق کا ساتھ دیا جب ہر طرف کفر ہی کفر تھا۔
مولا علی رضی اللہ عنہ کی شخصیت
امیر المومنین سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ایک ایسی نادر روزگار شخصیت ہیں جو اپنی خصوصیات اور خصائل کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہیں۔
حضرت علی علیہ الصلاة والسلام داماد مصطفی بھی ہیں اور شیر خدا بھی۔عبادت و ریاضت میں یکتا ہیں اور فصاحت و بلاغت میں بے مثال بھی۔وہ علم کی دولت سے مالا مال ہیں اور حلم آپ کی طبیعت کا خاصہ۔فاتح خیبر بھی ہیں اور شہنشاہ خطابت بھی۔آپ حیدر کرار بھی ہیں اور صاحب ذوالفقار بھی۔سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے شوہر نامدار بھی ہیں اور حسنین کریمین کے والد بزرگوار بھی۔
آپ میں بہت سے ایسے کمالات اور خوبیاں جمع ہیں جو آپ کو دیگر تمام صحابہ کرام سے ممتاز کرتی ہیں اس لیے آپ کو مظہر العجائب والغرائب بھی کہا جاتا ہے۔امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں اتنی احادیث موجود ہیں کہ شاید ہی کسی اور صحابی کی شان میں وارد ہوئی ہوں۔ شاگرد امام اعظم امام محمد فرماتے ہیں جتنی حدیثیں آپ کی فضیلت میں ہیں اتنی احادیث کسی اور صحابی کی شان میں وارد نہیں ہوئی ہوئیں ۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھائی ہونے کا درجہ
حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ہارون کی طرح اپنا بھائی قرار دیا ۔
بخاری و مسلم میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کو مدینہ طیبہ میں رہنے کا حکم ارشاد فرمایا تو حضرت علی نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ مجھے عورتوں اور بچوں پر اپنا خلیفہ بناکر کر چھوڑے جا رہے ہیں ہیں گویا حضرت علی کی خواہش تھی کہ وہ مدینہ منورہ میں رہنے کے بجائے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر داد شجاعت دیتے اور اپنی شمشیر خاراشگاف سے دشمنوں کے سر قلم کرتے جس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ میں تمہیں اس طرح چھوڑے جارہا ہوں جس طرح حضرت موسی حضرت ہارون کو چھوڑ کر گئے تھے فرق صرف یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔
۔ترمذی میں حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ منافق علی سے محبت نہیں کرتا اور مومن علی سے بغض و عداوت نہیں رکھتا۔جبکہ مشکوٰة شریف میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ایک روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے علی کو برا بھلا کہا اس نے مجھے برا بھلا کہا۔

خم غدیر
تاریخ الخلفاء میں حضرت ابو طفیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک کھلے میدان میں بہت سے لوگوں کو جمع کرکے پوچھا کہ میں تمہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوم غدیرخم کے موقع پر میرے متعلق کیا ارشاد فرمایا تھا اس مجمع میں سے کم و بیش تیس افراد کھڑے ہوئے اور انہوں نے گواہی دی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا جس کا میں مولا، علی اس کا مولا۔
یااللہ جو شخص علی سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ اور جو شخص علی سے عداوت رکھے تو بھی اس سے عداوت رکھ۔لیکن حضرت علی کی علمی شان سب سے جداتھی۔
شہادت
حضرت امام علی رضی اللہ عنہ کو ۱۹ رمضان المبارک میں ضرب لگی اور آپ رضی اللہ عنہ نے بروز ۱۲ رمضان المبارک کو شہادت نوش فرمائی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دس خصائل۔

حضرت عمر بن میمون رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس حاضر تھا کہ 9 افراد پر مشتمل ایک وفد آیا اور حضرت ابن عباس سے الگ ہوکر کچھ باتیں کیں۔ کی جب وہ چلے گئے تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ اس شخص کی غیبت کر رہے تھے جس کو دس خصوصیات حاصل ہے ۔پھر اپ نے وہ خصوصیات بیان فرمائیں۔
فرمایا کہ قلعہ خیبر کو فتح کرنے کے لیے یے جھنڈا دیتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں یہ پرچم اس شخص کو دوں گا ۔جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ تعالی کبھی بھی اس کو شرمندہ نہیں فرمائے گا۔

4۔حضرت علی رضی اللہ عنہ وہ شخص ہیں جو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بعد اسلام لائے۔

5۔حضرت علی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ شب ہجرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر اوڑھ کر آپ کے بستر پر سو گئے تھے۔اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے پکارا یا رسول اللہ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ تشریف لے گئے ہیں۔یوں ساری رات بستر رسالت پر آرام فرما رہے اور سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ پاک تشریف لے گئے۔
۔
6 ۔غزوہ تبوک کی طرف روانگی کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو موسیٰ کے بھائی ہارون ک مانند اپنا بھائی قرار دیا۔
7۔ساتویں خصوصیت یہ ہے کہ مسجد نبوی میں کھلنے والے تمام حجروں کے دروازے بند کردیئے گئے لیکن حضرت علی کا





No comments

Powered by Blogger.